ڈاکٹر مبارک علی کی بارے میں میری رائے کافی حد تک ناپسندیدگی پر مشتمل تھی جو زیادہ تر ان کے تحریروں کے ان اقتباسات کی بناء پر تھی جو اکثر و بیشتر فیس بک پر شئیر کیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی کے تاریخ کے بارے میں خاص کر پاکستان اور مسلمانوں کی تاریخ کے بارے میں جو نظریات ہیں وہ مقبول عام نظریات سے مختلف اور کافی حد تک متصادم ہیں۔ حال ہی میں انکی ویب سائیٹ پر انکی تمام کتب کے پی ڈی ایف ورژن دستیاب ہوئے، جو مجھ جیسے پڑھنے والے کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں
ڈاکٹر مبارک علی کی آپ بیتیاں "در در ٹھوکر کھائے" اور "میری دنیا" پڑھ کر ان کی زندگی اور جدو جہد سے آگاہی ہوئی۔ ایک مکمل سیلف میڈ انسان۔ ڈاکٹر صاحب اپنے والدین کے ہمراہ راجھستان کے شہر ٹونک سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اور حیدرآباد میں آبسے۔ اور عموماً مہاجرین جن حالات سے گزرے انہی حالات سے گزر کر ڈاکٹر صاحب نے حقیقتاً خاک سے جسے انگریزی میں اسکریچز سے شروع کرنا کہتے ہیں سے اپنا سفر شروع کیا۔ پہلے بحیثیت ایک کم آمدنی والے خاندان کے چشم و چراغ کے طور نامساعد حالات کا سامنا کیا لیکن اپنی تعلیم مکمل کی اور پھربطور "نا اہلِ زمین" جن جن تعصبات کا ایک مہاجر سرکاری ملازمت میں سامنا کرتا ہے ان سب کا سامنا کیا، رہی سہی کثر ان کی خوددار اور اصول پرست طبعیت نے پوری کردی، نتیجہ کبھی اس نگر کبھی اس نگر
ڈاکٹر مبارک علی کی پہلی آپ بیتی "در در ٹھوکر کھائے" میں انہوں نے اپنی راجھستان سے ہجرت، پاکستان میں بسنے، اپنی تعلیمی دور ، اپنی ملازمتوں کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے، تعلیم اور ملازمتوں کے سلسلے میں بیرون ملک اور بیرون حیدرآباد کے اسفار اور تجربات بیان کئیے ہیں۔ ایک طرف ان کی سوانح ان کے بچپن، آبائی وطن اور ہجرت کا نوحہ ہے تو دوسری طرف ان کی کتاب میں ہمیں حیدرآباد "جو اک شہر تھا عالم میں انتخاب" کے عالم شباب کا تذکرہ ملتا ہے، اسکی ادبی بیٹھکوں، اس کے اساتذہ اور اسٹوڈنٹ لائف سے واقفیت ہوتی ہے، حیدرآباد کی شہری ثقافت ان کی تحریر سے عیاں ہے۔
اپنی دوسری سوانح میری دنیا میں انہوں نے عمر رفتہ پر نظر ڈالی ہے کہ کیا وہ کامیاب رہے یا ناکام ، سفر زندگی احساس زیاں رہا یا حاصل سفر کچھ دامن میں ہے۔ اپنی ملازمتوں کا جائزہ لیا ہے کہ وہ اپنی اصول پرست طبعیت کے باعث ہر جگہ مس فٹ ہی رہے، انہوں نے جہاں بھی معاملات ٹھیک کرنے کی کوشش کی، خود انہیں ہی ٹھیک کر دیا گیا۔ اپنی نوجوانی اور دور تعلیم و ملازمت کے دوستوں کو یاد کیا ہے، ان کے ساتھ بتائے صبح و شام کو آواز دی ہے، ان کے رویوں پر بات کی ہے کہ کیسے وقت بدلتا ہے توکچھ دوست بھی بدل جاتے ہیں۔
اپنے علمی سفر کی داستان لکھی ہے ، ادب کی جن اصناف سے علم حاصل کیا ان کا تذکرہ کیا ہے۔ خاص کر اپنی تاریخ نویسی کے سفر کو بیان کیا ہے۔ ہندوستان سے خصوصاً ہندوستانی دانشوروں، سماجی کارکنوں اور تاریخ نویسوں سے اپنے تعلقات کو بیان کیا ہے ، ایک جگہ لکھتے ہیں کہ" گاندھی جی کے بارے میں کسی نے سوال کیا کہ پاکستان میں ان کے بارے میں کیا تاثر ہے، انہیں کیا سمجھا جاتا ہے، میں چپ ہوگیا کہ کیا بتاوں" حالانکہ انہیں کہنا چاہیے تھا کہ تقریباً ویسا ہی جیسا ہندوستان میں محمد علی جناح کو سمجھا جاتا ہے۔
بہر حال ان کی سوانح حیات پڑھ کر بندے کو لگتا ہے کہ وہ ایک دانشور ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نارمل انسان بھی ہیں جسے انہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جواس ملک میں ایک عام ہجرت یافتہ بندے کو کرنی پڑتی ہیں۔ مختصراً ڈاکٹر مبارک علی ایک خاص قسم کا عام سیلف میڈ آدم ہیں۔
No comments:
Post a Comment