A myriad of fascinating tales comprising of Princess Abida Sultan, of Sarkar AmmaN, of princely states of India, their Nawabs and princes, of Bhopal, of Muslim culture of colonized Indian subcontinent, of British royalty, of changing political scene of colonized India, of political history of Pakistan since birth and what not..!
اصل میں یہ ایک سوانح حیات نہیں تین سوانح عمریاں ہیں۔ ایک شہزادی عابدہ سلطان کی، ایک سرکار اماں کی عابدہ سلطان کی زبانی اور ایک پاکستان کی۔
سرکار اماں
نواب آف بھوپال سلطان جہاں بیگم یعنی عابدہ سلطان کی دادی اس کتاب کا ایک بہت اہم کردار ہیں جو تقریباً آدھی کتاب پر حاوی نظر آتی ہیں۔ ایک گھریلو لیکن بہادر خاتون جنہو ں نے بھوپال پر لمبے عرصے حکومت کی، نہ صرف ریاست کے معاملات درست رکھے بلکہ گھریلو ذمہ داریاں بھی پوری کیں۔ جنہوں نے شہزادی عابدہ جسے وہ "میری عابدہ" کہتی تھیں کی تربیت کی ۔ عابدہ کو قران خود پڑھایا مع ترجمہ ، ساتھ ہی فارسی کی تعلیم بھی خود ہی دی۔
سرکار اماں نے ٹوپی والے برقعے میں رہتے ہوئے ریاست کا نظم نسق خود نہ صرف چلایا بلکہ اسے ترقی بھی دی۔جنہیں آنے والے وقت اور تبدیلیوں کاقبل از وقت ادراک تھا۔ دونوں بڑے بیٹوں کے انتقال کے بعد سب سے بڑے بیٹے سے سب سے بڑے پوتے کی جگہ اپنے سب سے چھوٹے بیٹے [عابدہ سلطان کے والد] کو ولی عہد مقرر کرانے کے لیے وائسرائے سے جنگ کی بلکہ وائسرائے کے فیصلے کے خلاف لندن جاکر شاہ برطانیہ کے دربار میں ایک سال تک مقدمے کی پیروی کی اور بالآخر مقدمے کا فیصلہ اپنے حق میں کروا کر لوٹیں۔ ملکہ الزبتھ دوئم کی پیدائش پر شاہ برطانیہ کے شایان شان چھٹی بکھنگم پیلس لے کر گئیں۔[اب یہ عمل رشوت یا بدعنوانی کے ذمرے میں آتاہے]۔
بظاہر ایک سادہ عورت لیکن اندر سے ایک شیردل، فیاض اور مہربان حکمران ، اپنے بچوں کے لیے بظاہر ایک سخت گیر نگہبان لیکن حقیقت میں ایک مامتا سے معمور ماں اور دادی۔ بیک وقت تجربہ کار، زمانہ شناس اور معصوم بھی۔
عابدہ سلطان
ایک باغی شہزادی جس نے پیدائش کے بعد سے ہی اپنی دادی کے زیر سایہ پرورش، تعلیم اور تربیت پائی۔ہر طرح کی دینوی اور دنیاوی تعلیم حاصل کی۔ہر طرح کے کھیل اور دستی ہنر سیکھے بشمول شیر کا شکار۔جس نے 73 شیروں کا شکار کیا۔ جہاز اڑایا، مردوں کے ساتھ ہاکی کھیلی۔ آل انڈیا اسکواش چیمپین ۔ بطور ولی عہد بھوپال ریاست کے معاملات کی دیکھ بھال کی۔ پوری بھوپال رائل فیملی میں سے واحد فرد جس نے پاکستان کو اپنا وطن منتخب کیا اور تن تنہا ہجرت کی ۔جس نے بھوپال میں شہزادیوں کی طرح زندگی گزاری لیکن دادی کی تربیت کی بدولت پاکستان آنے کے بعد حقیقتاً زیرو سے زندگی شروع کرنے میں کوئی تامل نہیں کیا۔جس نے آنکھ کھولی تو گھر میں بجلی کے قمقمے، فرج،گیزر، ریڈیو، ٹیلیفون دیکھا تھا 8 سال تک ملیر میں بغیر بجلی گزارہ کیا لیکن بھوپال واپس لوٹ جانے کی بھارت کی ہر پیش کش ٹھکرا دی۔
نیم خودمختار ریاستیں
کتاب برٹش انڈیا کے اندرونی حالات پر سے بھی آگا ہ کرتی ہے۔ خاص کر انڈیا کی نیم خود مختار ریاستوں کے بارے میں ۔ انڈیا میں 562 نوابی ریاستیں یا راجدھانیاں تھیں۔ جن کے درجات توپوں کی سلامی کی اجازت سے منسلک تھے۔ جیسے حیدرآباد، بڑودہ، گوالیار کشمیر اور میسور 21 توپوں کی سلامی والی ریاستیں تھیں۔ جوکسی بھی ریاست کا سب سے بڑا درجہ تھا۔ پھر بھوپال، اندور، پٹیالہ، قلات، کولہاپور، اودےپور 19 توپوں کی سلامی والی ریاستیں تھیں۔ یعنی درجہ دوئم۔ اسی طرح 17، 15، 13 اور 11 توپوں کی سلامی والی ریاستیں تھیں۔ وائسرائے یا شاہ کی کسی ناراضی کی صورت میں توپوں کی تعداد کم کر کے ریاستوں کی تنزلی بھی کر دی جاتی تھی۔ دوسری جانب ریاستیں وائسرائے کے مشورے اور شاہ برطانیہ کی منظوری کے بغیر ولی عہد یا نواب کی تقرری نہیں کرسکتی تھیں۔اکثر ریاستوں میں اقلیت اکثریت پر حکمران تھی اور حکمران خاندان کے مذہب پر ہی ریاست کا مذہب کہلاتا تھا۔ جیسے بھوپال کی عوام کی اکثریت ہندو تھی لیکن حکمران خاندان مسلمان تھا سو بھوپال ایک مسلم ریاست کہلاتی تھی۔ جبکہ کشمیر یوں کی اکثریت مسلمان تھی اور راجہ ہندو تھا، سو کشمیر ہندو اسٹیٹ کہلائی۔
نیم خود مختار ریاستوں کے بارے میں عموماً اور بھوپال کے نواب خاندان کے بارے میں اور انگریزوں سے انکے تعلقات کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے ، وہ ایک نواب خاندان کے فرد اور ولی عہد کے نقطہ نظر سے لکھا گیا ہے۔ اگرموجودہ حالات میں اور تحریک پاکستان کے نظریے سے دیکھا جائے تو نواب خاندان کا انگریز پرور رویہ خود غرضی اور تحریک آزادی[انگریزوں سے آزادی] سے غداری کے مترادف تھا۔ جو ریاستوں کے علاوہ باقی سارے ہندوستان میں تیزی سے پھیل رہی تھی۔نواب آف بھوپال [شہزادی کے والد] نے ایک طرف گول میز کانفرنسوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی، دوسری طرف ریاستوں پر مشتمل ایک تیسری آزاد اکائی 'راج استھان' بنانے کی کوشش کی جو موجودہ بھارت اور پاکستان سے ایک الگ آزاد یونٹ ہوتا۔ اور تیسری طرف ریاست کا بھارت سے الحاق کر کے ، ریاست کو عابدہ سلطان کے حوالے کر کے پاکستان جا کر گورنر جنرل بننے کا خفیہ پلان بنا رکھا تھا جو عابدہ سلطان کی خفیہ پاکستان ہجرت سے ناکام ہوگیا ۔
بادشاہ کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا |
----------------------
پی ایس: جس بھوپال پر آجکل سیف علی خان اور کرینہ کپور کا راج ہے، وہ بھوپال دراصل شہزادی عابدہ سلطان کے اپنی بہن کے حق میں دست بردار ہوجانے کی وجہ سے پٹودی خاندان کو منتقل ہوگیا، شہزادی عابدہ سلطان کی بہن کی شادی نواب پٹودی سے ہوئی تھی جو کہ سیف علی خان کی دادی یعنی نواب منصور پٹودی کی والدہ تھیں۔ شہزادی عابدہ سلطان کے پاکستان چلے آنے کے بعدانکے والد کے انتقال کے پر انہوں نے اپنی سے چھوٹی بہن کو انکا حق حکمرانی حاصل کرنے کا مشورہ دیا، چھوٹی بہن نے نا صرف ریاست کلیم کی بلکہ بھوپال کے نواب خاندان کی ساری جائیداد پر بھی کلیم کردیا اور کانگریس کے تعلقات ہونے کی بنا پر حاصل بھی کرلی اوراس طرح اپنی والدہ اور تیسری بہن کو بھی جائیداد سے محروم کر دیا۔ کیونکہ
"بادشاہ کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا"
I would like to translate and publish reviews by you on my website...
ReplyDeleteEven better if you have something in English. :)
www.googlediary.com
is the site and it is in initial phase, newbie :)
Hmm ... if the book is in Urdu, English review will not serve the purpose. For the books in English, it would be appropriate. but I have very few English books and I guess commented in English on them .. This one I would try to translate into English. you can share it after giving due credits alongwith mentioning link of my blog :)
Delete