Sunday, November 1, 2015

ہم اور اردو رومینٹک ناولز

ایک پوسٹ مارٹم


ہمارے آفس میں ایک منی سی لائبریری ہے، جس میں ایک الماری ادبی شاہکاروں کے لیے مختص ہے۔ لیکن ادبی کتابوں میں زیادہ تر رومانی ناولز ہیں کام کی کتابیں کم ہیں۔ ہم نے ان کتابوں سے تھوڑا سا استفادہ کیا ہے۔ زیادہ تر ہم فیس بک پر ہوتے ہیں جس نے ہمارے مطالعے کی عادت کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ 

خیر ایک دن ہمیں خیال آیا کہ ایسا نہ ہو کہ اس آفس یا دنیا میں ہمارے دن پورے ہوجائیں۔ تو کیوں نہ ان کتابوں کو پڑھ لیا جائے۔ لہذہ ہم نے ترتیب وار کتابیں پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ اس ترتیب میں سب سے پہلے بشریٰ رحمان کے ناولز کی باری آئی۔ 

"لگن" سے اسٹارٹ لیا۔ دوچار پیج پڑھ کر اندازہ ہوا کہ یہ تو نادیہ خان والے ڈرامے بندھن کی اشٹوری سی لگ رہی ہے۔ جیسے جیسے پڑھتے گئےیہ تاثر پختہ ہوتا گیا حتیٰ کہ ثابت ہوگیا کہ یہ وہی کہانی ہے۔ کرداروں کے نام بھی وہی ہیں۔ اب ایک "ڈراماٹائزڈ" ناول کو پڑھنے میں ایک قباحت یہ ہے کہ پڑھنے کے دوران آپ کرداروں کو نہیں اداکاروں کو مکالمے ادا کرتے محسوس کرتے ہیں۔
تو جناب ہیرو صاحب تو فٹا فٹ نعمان مسعود کے کردار میں ڈھل گئے، ہدایت کار کی چوائس کی داد دینی پڑے گی نعمان مسعود کے انتخاب پر۔ لیکن ہیروئن صاحبہ نادیہ خان کے کردار میں ہرگز فٹ نہ ہوسکیں۔ باقی سارے کردار بھی اداکاروں سے میچ کر گئے۔

اب آپ نےڈرامہ پہلے دیکھ رکھا ہو تو لازمی ہے کہ ناول کی کہانی کا ڈرامے کی کہانی سےموازنہ کریں گے۔ ناول میں ہم دل باجی، ایک پیاری سی بچی اور ان کے پاپا کو ڈھونڈتے رہے، پر نہ ملے۔ بوبی کا کردار بھی ناقابل ذکر قسم کا تھا جسے ڈرامے میں زیب داستان کےلیے بڑھا دیا گیا تھا۔ 

ناول کے اختتام پر تو ہمیں تاو ہی آگیا۔ گو کہ اختتام منطقی تھا۔ اور ہمیں بھی ایک خاتون کا گھر اجاڑنے میں ہرگز کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ لیکن ایک خاتون جو اتنا سدھر چکی ہو، اسے گھر واپسی کےلیے ہیرو کے پاون پکڑوانے کی کیا ضرورت تھی۔ جبکہ ہیرو اتنا آل ریڈی اتنا سمجھدار اور سلجھا ہوا تھا تو کیا اسے ہیروئن کا چہرہ دیکھ کر نہیں سمجھ جانا چاہیے تھا کہ تبدیلی آچکی ہے۔

دوسرا ناول جو ہمارے ہاتھ چڑھا وہ تھا "کس موڑ پر ملے ہو" اچھی خاصی کہانی تھی پہلے والدین کی ، پھر بیٹیوں کی۔ پھر ہیرو کو دل کی بیماری تشخیص ہوگئی، چلو ٹھیک ہے، پھر ہیرو کا دل ٹرانسپلانٹ کروانا پڑا ، چلو یہ بھی مان لیا، ہوجاتا ہے۔ لیکن پھر اس میں ایک لڑکی مزید ڈال دی وہ بھی دل عطیہ کرنےوالے کی سابق منگیتر۔ اب ہیرو اور نئی ہیروئن کی اچانک ملاقات کروائی گئی اور ہیرو کو ان کی سابق زندگی کے مطلب مرنے والے کی زندگی میں نئی ہیروئن کے ساتھ تعلقات کے فلیش بیکس ہونے لگے۔ 

اور اس فلیش بیک میموری اٹیکس کی ایک عدد ہارٹ اسپیشلسٹ اور وہ بھی انگریز ہارٹ اسپیشلسٹ نے تصدیق بھی کردی کہ ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے کیسز میں ایسا ہوجاتا ہے۔ اوئے اللہ کو مانو دل کا یادداشت کےساتھ دووووور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر کہانی کا پلاٹ یہی رکھنا تھا تو ہیرو کو کوئی دماغی مرض میں مبتلا کروادیتے۔ لیکن دماغ کے ٹرانسپلانٹ کا تو ہم نے بھی ابھی تک نہیں سنا، مصنفہ نے کہاں سنا ہوگا۔

کاش مصنفہ نے تھوڑی میڈیکل سائینس نہ سہی سائینس ہی پڑھی ہوتی ، کسی ڈاکٹر سے ہی مشورہ کر لیا ہوتا۔ ہم مانتے ہیں کہ اس زمانے میں ایک تو گوگل نہیں تھا اور رومانی ناولز پڑھنے والی لڑکیاں اتنی ہشیار بھی نہیں ہوتی تھیں کہ ایسی غلطیاں پکڑ سکیں۔ یہ تو انٹرنیٹ کا ستیا ناس ہو کہ ہم جیسے بڑی ناول نگاروں کی غلطیاں پکڑنے لگے ہیں۔ 


ابھی تیسرا ناول اٹھایا ہے " پیاسی" ، ہیرو ہیروئن ایک دوسرے پر ایک نظر ڈال کر ہی بالترتیب ایک دوسرے پر لٹو ہوگئے ہیں ، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا . . . 


اٹ مے کن ٹی نیو . . .

2 comments:

  1. بشری رحمن صاحبہ نے ایک بار بہاولپور سے الیکشن لڑا تھا ۔ آپ کا تبصرہ دیکھ کر خیال آرہا ہے کہ شاید سبھی لوگوں نے ان کے ناول پڑھ رکھے تھے تبھی ان کے اتنے ووٹ ملے تھے کہ ضمانت ضبط ہو گئی تھی :)

    ReplyDelete
  2. بالکل آپ کی بات ساے اتفاق ہے، جب ناول ڈرامٹائز ہوجائے تو پھر عجیب سی کیفیت ہوتی ہے۔ یہی کچھ جو آپ نے بندھن کیلئے محسوس کیا میں "دو راہہ" میں محسوس کرچکا ہوں۔ لیکن اس کا ایک الگ مزہ بھی آتا ہے۔
    بے شک سوچ و فکر اور یادوں کا دل سے کوئی تعلق نہیں یہاں تھوڑی سی کمی رہ گئی ہے مگر ایک چیز جو میں نے نوٹ کی ہے کہ ہالی ووڈ فلموں میں جب بھی نئی ٹیکنالوجی اور جدید ہتیار یا ٹرانسپورٹیشن دکھائی گئی ہیں وہ اب حقیقت کا روپ دھار رہی ہیں یعنی کہ یہ ساری چیزیں ایک مصنف کے ذہن سے نکل کر دائریکٹر پردہ سیمیں پر ناظریں کو دکھاتے ہیں اور پھر سائنسدان اور انجینئر ان آئیڈیاز کو ڈویلپ کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے مستقبل میں یہ بھی معلوم ہوجائے کہ جیسے جسم ہارڈوئیر اور روح اس کا سافٹ وئیر ہے ایسے ہی دل کیلئے بھی کوئی خاص روح (کوئی سافٹ وئیر ہو) جس کا تعلق ذہن سے ہو لیکن ہارڈ وئیر(دل) کے ساتھ سافٹ وئیر کیسے انسٹال ہوگا یہ بشریٰ صاحبہ نے سائنسدانوں اور محقیقین کیلئے میدان کھلا چھوڑ دیا ہے۔ انجوائے۔۔۔

    ReplyDelete