غبارِ خاطر مولانا آزاد کے خطوط پر مبنی کتاب ہے جو انہوں نے قلعہ احمد نگر میں دوران سیاسی قید و بند اپنے کسی فرضی یا حقیقی دوست کے نام لکھے ہیں۔ یہ کتاب/ خطوط ایک عالم، عالم تنہائی میں کہاں کہاں رخش خیال دوڑاتا ہے اور کس طرح اپنی تنہائی کو انجمن میں تبدیل کرتا ہے کی ایک بہترین مثال ہے۔ ان خطوں میں ذاتی ملال بھی ہے، قومی خیال بھی، فلسفہ بھی ہے لاجک بھی، اور بہت عام سی باتوں سے بہت ہی اعلیٰ درجے کے خیالات اخذ کیے گئے ہیں ۔
مولانا، اے حمید کی طرح چائے کے بہت شوقین تھے بلکہ عشق میں مبتلا تھے، اور چائے میں دودھ اور چینی کی ملاوٹ کے شدید مخالف۔ ایک پورا خط چائے اور اسکے خواص، اسکی ناز برداریوں اور دوران قید مطلوبہ برانڈ نہ ملنے کی پریشانیوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ ایک خط جو بہت ہی مزیدار ہے وہ قید خانے کے منتظم پر ایک باورچی کی تلاش میں کیا گزری کے بارے میں ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت خواہ انگریز کی ہی کیوں نہ ہو سرکاری معاملات میں ہمیشہ بدحواس ہی رہتی ہے۔
گو کہ خطوط میں عربی یا فارسی اشعار کی بہتات ہے ۔ لیکن اسکے باوجود کتاب پڑھنے کے لائق ہے۔ [آخر میں اشعار کا اردو ترجمہ دیا گیا ہے، ہمت ہے تو ہر صفحے کو پڑھنے کو دوران کم از کم چار بار مڑ کر ترجمہ دیکھ لیں، لطف یقیناً دوبالا ہو جائے گا]
اقتباسات از غبار ِ خاطر:
"زندگی میں جتنے جرم کیے اور انکی سزا پائی, سوچتا ہوں توان سے کہیں زیادہ تعداد ان جرموں کی تھی جو نہ کر سکے اور جن کے کرنے کی حسرت دل میں رہ گئی. یہاں کردہ جرموں کی سزائیں تو مل جاتی ہیں لیکن ناکردہ جرموں کی حسرتوں کا صلہ کس سے مانگیں"
باورچی کی تلاش
"سب سے زیادہ اہتمام اس بات کا کیا گیا ہے کہ زندانیوں کا کوئی تعلق باہر کی دنیا سے نہ رہے، یہاں تک کہ باہر کی پرچھائیں بھی یہاں نہ پڑنے پائے۔ گویا اب احمد نگر بھی جنگ کے پراسرار مقامات کی طرح سم وئیر ان انڈیا کے حکم میں داخل ہوگیا ہے۔ ۔۔
قلعے کی تمام کھڑکیاں دیواریں چن کر بند کر دی گئی ہیں، دیواریں اس طرح چنی گئیں ہیں کہ روشندان بھی بند ہو گئے ہیں۔ قلعے کے دروازے کی شب و روز پاسبانی کی جاتی ہے اور قلعہ کے اندر بھی مسلح سنتری چاروں طرف پھرتے رہتے ہیں پھر بھی ہماری حفاظت کے لیے مزید روک تھام ضروری سمجھی گئی۔ جیلر اور وارڈر کے سوا کوئی باہر نہیں جاسکتا یہ بھی ضروری ہے کہ جو کوئی دروازے سے گذرے سنتری کو جامہ تلاشی دے کر گذرے۔ وارڈر کو ہر مرتبہ برہنہ تلاشی دینی پڑتی ہے، وہ جیلر کے پاس جا جا کر روتا ہے مگر کوئی شنوائی نہیں۔ پہلے روز جیلر نکلا تھا تو اس سے بھی جامہ تلاشی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ نہ گھر سے خط و کتابت کر سکتے ہیں جیلر کو بھی گھر خط لکھنے کی اجازت نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے ان ہی راہوں سے کوئی خبر باہر پہنچ جائے، وہ روتا رہتا ہے کہ مجھے صرف ایک دن کی چھٹی مل جائے تو پونا ہو آوں۔
سب سے پہلا مسئلہ باورچی کا پیش آنا تھا اور پیش آیا۔ باہر کا کوئی آدمی نہیں رکھا جاسکتا تھا، وہ کیوں قیدی بن کر رہنے لگا۔ اور قیدیوں میں ضروری نہیں کہ کوئی باورچی نکل آئے۔ قیدی باورچی جب ہی مل سکتا ہے جب کوئی قرینہ کا باورچی ذوق جرائم میں اتنی ترقی کرے کہ پکڑا جائے اور پکڑا بھی جائے کسی اچھے خاصے جرم میں کہ اچھی مدت کے لیے سزا دی جاسکے۔ لیکن ایسا حسن اتفاق گاہ گاہ ہی پیش آسکتا ہے، اور آجکل تو سوء اتفاق سے کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقے کے باورچیوں میں کوئی مرد میدان رہا ہی نہیں۔ انسپکٹر جنرل جب آیا تھا تو کہتا تھا کہ بڑودا جیل میں ہر گروہ اور پیشے کے قیدی موجود ہیں مگر باورچیوں کا کال ہے۔ نہیں معلوم ان کم بختوں کو کیا ہوگیا ہے۔
چیتہ خان [جیلر] یہاں آتے ہی اس عقدہ لاینحل کے پیچھے پڑ گیا تھا اور روز اپنی طلب و جستجو کی ناکامیوں کی داستان سناتا تھا۔ ایک دن خوش خوش آیا اور خبر سنائی کہ ایک بہت اچھے باورچی کا انتظام ہو گیا ہے۔ کلکٹر نے ابھی ابھی فون پر خبر دی ہے کہ کل سے کام پر لگ جائے گا۔ دوسرے دن کیا دیکھتا ہوں کہ واقعی ایک جیتا جاگتا آدمی اندر لایا گیا ہے معلوم ہوا طباخ موعود یہی ہے۔ مگر نہیں معلوم اس غریب پر کیا بیتی تھی کہ آنے کو تو آگیا تھا، لیکن کچھ ایسا کھویا ہوا اور سراسیمہ حال تھا جیسے مصیبتوں کا پہاڑ سر پر ٹوٹ پڑا ہو۔ وہ کھانا کیا پکاتا اپنے ہوش و ہواس کا مسالہ کوٹنے لگا۔
بعد کو اس معاملہ کی جو تفصیلات کھلیں ان سے معلوم ہوا کہ یہ شکار واقعی کلکٹر ی کے جال میں پھنسا تھا۔ کچھ اس کے زورِ حکومت نے کام دیا ، کچھ ساٹھ روپے ماہانہ تنخواہ کی ترغیب نے اور یہ اجل رسیدہ دام میں پھنس گیا۔ اگر اسے بعافیت قلعہ میں فوراً پہنچادیا جاتا تو ممکن ہے کچھ دنوں تک جال میں پھنسا رہتا۔ لیکن اب ایک اور مشکل پیش آگئی۔ یہاں کے کمانڈنگ آفیسر سے باورچی رکھنے کے بارے میں بات چیت ابھی تک ختم نہیں ہوئی تھی، وہ پونا کے صدر دفتر کی ہدایت کا انتظار کر رہا تھا اور اس لیے شکارکو فوراً قلعے کے اندر نہیں لے جاسکتا تھا۔ اب اگر اسے گھر جانے کا موقع دیا جاتا تو اندیشہ ہے کہ شہر میں چرچا پھیل جائیگا اور بہت ممکن ہے کوئی موقعہ طلب اس معاملےسے بر وقت فائدہ اٹھا کر باورچی کو نام و پیام کا ذریعہ بنا لے۔ اگر روک لیا جاتا ہے تو پھررکھا کہاں جائے کہ زیادہ سے زیادہ محفوظ جگہ ہو اور باہر کا کوئی آدمی وہاں نہ پہنچ سکے۔
اسے کلکٹر کے یارانِ طریقت کی عقلمندی کہیے یا بے وقوفی کہ اسے بہلا پھسلا کر یہاں کے مقامی قید خانہ میں بھیج دیا کہ ان کے خیال میں اگر قلعہ کے علاوہ کوئی محفوظ جگہ یہاں ہوسکتی تھی تو وہ قید خانہ کی کوٹھری ہی ہوسکتی تھی۔ قید خانہ میں جو اسے ایک رات دن قید و بند کے توے پر سینکا گیا تو بھوننے تلنے کی ساری ترکیبیں بھول گیا، اس احمق کو کیا معلوم تھا کہ ساٹھ روپے کے عشق میں یہ پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ اس ابتدائے عشق ہی نے کچومر نکال دیا قلعہ تک پہنچتے پہنچتے قلیہ بھی تیار ہوگیا۔"
#Ghubar_e_Khatir
#Abul_Kalam_Azad
یہ کتب انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہیں
ReplyDeleteساتھ لنک کی بھی تھوڑی سے محنت کر دیں گی تو پڑھنے والا ساتھ ہی کتاب بھی پڑھ سکتا ہے
اگر ہو سکے تو