Tuesday, January 12, 2016

سفرنامہ اسکردو: مزملہ شفیق


اردو ادب میں سفرنامے کو بمشکل ادب کی ایک صنف مانا جاتا ہے اور اس پہ بھی مردوں کی اجارہ داری ہے۔خواتین سفرنامہ نگار کم ہی نظر آتی ہیں۔ مزملہ شفیق پیشے کے لحاظ سے استاد ہیں اور تارڑ صاحب کے سفر ناموں کی ڈسی ہوئی ہیں۔ 2003 میں پانچ نڈر خواتین "اکیلی" سکردو کے سفر پر چل پڑیں اور دیو سائی تک "اکیلی" ہی ہوکر آگئیں۔

چھوٹے چھوٹے پرمزاح اور خوشگوار جملوں سے مزین مختصر لیکن جامع سفرنامہ جسے بس پڑھتے جائیں۔ جس نے چاچا جی کے سفرنامے پڑھے ہوں اسے کسی اور کے سفرنامے بہت مشکل سے پسند آتے ہیں ۔ میری فریکوئنسی بہت کم سفرنامہ نگاروں کے ساتھ میچ ہوتی ہے، کافی وقت لگتا ہے کسی اور کے سفرناموں سے ٹیون ہونے میں، لیکن مزملہ کا سفرنامہ پڑھ کر ایسا لگا کہ جیسے یہ میرے ہی جملے ہوں، ارے میں بھی تو ایسا ہی سوچتی ہوں، میرا دل بھی تو ایسی ہی حرکتیں کرنے کو چاہتا ہے ..اپنے مشاہدے اور طرز بیاں کی حد تک مزملہ نسرین اور سمیرا کی ہی ایک اور ایکسٹینشن ہیں اور ہاں اس سفر میں ایک سمیرا بھی تھی جس کا مزاج نسرین جیسا سا تھا :P

مزملہ بہت شکریہ اس شاندار سفر اور مزےدار سفرنامے کے لیے، مزید شکریہ ہماری مٹھی میں ایک جگنو دینے کے لیے۔

--------------------------

کتاب فیروز سنز، کلفٹن کراچی پر دستیاب ہے۔

No comments:

Post a Comment