Saturday, May 16, 2015

کاغذ کا گھوڑا: عکسی مفتی

کاغذ کا گھوڑا عکسی مفتی کے بیوروکریٹک تحربات پر مشتمل یادداشتیں ہیں جو پاکستانی افسر شاہی کی ذہنیت اور کام کرنے میں رکاوٹیں ڈالنے کی تراکیب پر ایک دلچسپ کتاب ہے۔ اسے بیوروکریٹک لطیفے کہنا زیادہ بہتر ہوگا ۔


"اچھا تو مفتی صاحب آپ لوک گیتوں پر کام کریں گے، دیکھنے میں تو آپ معقول انسان نظر آتے ہیں۔ پڑھے لکھے بھی ہیں۔"

1970 میں لال قلعہ انڈیا میں نصب لائٹ اینڈ ساونڈ شو کی کامیابی دیکھتے ہوئے لال قلعہ میں بھی لال قلعہ جیسا شو شروع کیا گیا جو کچھ عرصہ چل کر بند ہوگیا۔ جبکہ یہ لال قلعہ والے شو سے کہیں بہتر تھا۔

1993 میں حکومت پاکستان کے کسی اعلیٰ عہدیدار نے پھر لال قلعہ شو دیکھا تو واپسی پر احکامات جاری کر دیے کہ پاکستانی شو پھر بحال کرایا جائے۔ ذمہ داری ادھر ادھر سے ہوتی ہوئی عکسی مفتی پر آگئی۔ قلعہ میں سوا سال گزارنے کے بعد اور شو کو بحال کرانے کے بعد واضح ہوا کہ ہمارا شو کیوں نہیں چلتا۔

"شو محکمہ سیاحت کی ملکیت تھی، قلعہ جہاں شو نصب تھا محکمہ آثار قدیمہ کی ملکیت تھا۔ محکمہ سیاحت کے ٹیکنیشن تاریں لگاتے تو محکمہ آثار قدیمہ کے مالی ان تاروں میں پانی ڈال جاتے۔ سیاحت والے فواروں کی روشنیاں جلاتے، تو آثار قدیمہ والے پانی بند کردیتے۔سیاحت والے روشنی فکس کرتے تو قدیمہ والے کئی اعتراض اٹھا دیتے۔ دراصل آثار قدیمہ کی نوکر شاہی نہیں چاہتی تھی کہ شو کامیاب ہو۔ یوں ان کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا تھا، شو رات گئے بند ہوتا تھا جبکہ آثار قدیمہ کا عملہ شام ہی کو چھٹی کرجاتا تھا۔

اس محکمانہ لڑائی میں کئی ایک نے فائدہ اٹھانے کے راستے تلاش کر لئے، شو کے واحد ٹیکنیشن نے مشین خراب کرنی سیکھ لی، وہ کوئی اہم پرزہ نکال لیتا اور اسلام آباد کو خبر کر کے شو بند کر دیتا۔ یوں کئی یوم کی چھٹی ہوجاتی اور آٹھ دس ہزار پرزہ بحال کرنے کے بھی مل جاتے۔

دراصل محکمہ سیاحت بھی اس شو کے حق میں نہ تھا۔ ان کے دفاتر اسلام آباد میں تھے۔ اور شو لاہور میں۔ اس شو کی نہ تو کسی افسر کو سمجھ تھی، نہ اس میں کوئی کمائی تھی، سب کچھ ایک شو آپریٹر پر چھوڑ رکھا تھا۔ اول تو کوئی افسر اس کا کام دیکھنے نہ آتا، اور اگر آ بھی جاتا تو اسے کچھ سمجھ نہ پڑتی ، جو ٹیکنیشن کہتا اس پر دستخط کر جاتا۔"

"ضیالحق کے دورِ حکومت میں فنکاروں کے باہر جا کر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے پر پابندی لگ گئی۔ فنکار ملک میں اسلامائزیشن کے سبب تقریباً بے روزگاری کا شکار تھے، ایسے میں غلام علی صاحب کو انڈیا کے دورے پر بلایا گیا، جہاں ان کو اپنے فن کا مظاہرہ بھی کرنا تھا، تمام فنکاروں پر پابندی تھی کہ وہ وزارت ثقافت اور کابینہ ڈویژن کے این او سی کے بغیر ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔ 

غلام علی صاحب نے عکسی مفتی سے رابطہ کیا جو اس وقت لوک ورثہ سے منسلک تھے، عکسی کی کوششوں سے غلام علی کو جو ان او سی موصول ہوا اس پر یہ تحریر تھا:

"the government of Pakistan has no objection to Ghulam Ali proceeding to India on the condition that he does not sing there."

عکسی نے غلام علی کو مشورہ دیا کہ تم انڈیا جا کر پہلی محفل موسیقی پاکستانی سفیر کے گھر پر کرنا اور اسکے بعد جہاں دل چاہے گاتے رہنا۔ کوئی تمہارا بال بھی بیکا نہیں کرسکے گا۔ ایسا ہی ہوا پاکستان کے سفیر صاحب نے اپنی نجی محفل موسیقی میں ریڈیو، ٹی وی اور پریس کی نامور شخصیات کو مدو کیا، غلام علی کی غزل گائیکی پر اداریے، کالم اور تصاویر کی بھرمار ہو گئی۔ اور اگلے ہی ہفتے سفیر صاحب نے اپنی شاندار کار کردگی مکمل رپورٹ وزارت امور خارجہ اور وزارت ثقافت کو پیش کر دی۔"

No comments:

Post a Comment